آوارگی میں ہم نے اس کو بھی ہُنر جانا (محسن نقوی)

آوارگی میں ہم نے اس کو بھی ہُنر جانا
اقرار وفا کرنا، پھر اس سے مُکر جانا!!!

جب خواب نہیں کوئی، کیا عمر کا طے کرنا
ہر صبح کو جی اُٹھنا، ہر رات کو مر جانا!!!

شب بھر کے ٹھکانے کو, اک چھت کے سوا کیا ہے
کیا وقت پہ گھر جانا، کیا دیر سے گھر جانا!!!

ایسا نہ ہو دریا میں تم بارِ گراں ٹھہرو
جب لوگ زیادہ ہوں کشتی سے اُتر جانا!!!

سقراط کے پینے سے , کیا مجھ پہ عیاں ہوتا
خود زہر پیا میں نے , تب اس کا اثر جانا !!!

جب بھی نظر آؤ گے, ہم تم کو پکاریں گے
چاہو تو ٹھہر جانا , چاہو تو گُزر جانا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *