سوز اِتنا تو نَوا میں آئے (محسن نقوی)

سوز اِتنا تو نَوا میں آئے
اُس کا پیغام ہَوا میں آئے
مثلِ گُل اب کے ہو وحشت اپنی
زخم کا رنگ قبا میں آئے
یُوں اچانک تُجھے پایا میں نے
جیسے تاثیر دُعا میں آئے
چاند نے جُھک کے ستاروں سے کہا
کِتنے انسان خلا میں آئے؟
حادثہ ضبط کا دُشمن ہے اگر
حوصلہ اہلِ وفا میں آئے
اب تو لَب کھول دہن بَستہ مِرے
زلزلہ ارض و سما میں آئے
روگ کیا جی کو لگا ہے محسنؔ!
زہر کا نام دَوا میں آئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *