آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا​ (امجد اسلام امجد)

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا​
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا​

کچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش​
پھر یوں ہوا کہ خود مرا چہرہ بدل گیا​

جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے​
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا​

قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی​
اس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا​

کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی!​
جاتے ہی ایک شخص کے، کیا کیا بدل گیا​

اک سرخوشی کی موج نے کیسا کیا کمال​
وہ بے نیاز، سارے کا سارا بدل گیا​

اٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں​
پردہ اٹھا تو سارا تماشہ بدل گیا​

حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے​
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا​

کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی​
گھر کی فضا، مکان کا نقشہ بدل گیا​

شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ​
منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا​

قائم کسی بھی حال پہ دنیا نہیں رہی!​
تعبیر کھو گئی، کبھی سپنا بدل گیا​

منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا​
جس نے اسے جدھر سے بھی دیکھا، بدل گیا​

اندر کے موسموں کی خبر اس کو ہوگئی​
اس نوبہار ناز کا چہرہ بدل گیا​

آنکھوں میں جتنے اشک تھے، جگنو سے بن گئے​
وہ مسکرایا اور مری دنیا بدل گیا​

اپنی گلی میں اپنا ہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ​
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *