ایک رقاصہ تھی کس کس سے اشارے کرتی (احمد ندیم قاسمی)

ایک رقاصہ تھی کس کس سے اشارے کرتی

آنکھیں پتھرائیں اداؤں میں توازن نہ رہا

ڈگمگائی تو سب طرف سے آواز آئی

فن کے اس اوج پہ تیرے سوا کون گیا

فرشِ مرمر پہ گری گر کے اٹھی اٹھ کے جھکی

خشک ہونٹوں پہ زباں پھیر کے پانی مانگا

اوک اٹھائی تو تماشائی سنبھل کر بولے

رقص کا یہ بھی اک انداز ہے اللہ اللہ

ہاتھ پھیلے ہی رہے سل گئی ہونٹوں سے زباں

ایک رقاص کسی سمت سے ناگاہ بڑھا!

پردہ سرکا تو معاً فن کے پجاری گرجے

“رقص کیوں ختم ہوا ؟ وقت ابھی باقی تھا”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *