اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے (اکبر الہ آبادی)

اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے

ناز اتنا نہ کریں ہم کو مٹانے والے

اٹھتے جاتے ہیں اب اس بزم سے اربابِ نظر

گھٹتے جاتے ہیں مرے دل کے بڑھانے والے

خاتمہ عیش کا حسرت ہی پہ ہوتے دیکھا

رو ہی کے اٹھتے ہیں اس بزم سے گانے والے

حدِ ادراک میں داخل نہ ہوا سرِ ازل

کچھ سمجھ ہی نہ سکے ہوش میں آنے والے

قدمِ شوق بڑھے ان کی طرف کیا اکبر

دل سے ملتے  نہیں یہ ہاتھ ملانے والے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *