فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں (اکبر الہ آبادی)

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں

ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے

شہرِ تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں

زندگانی کا مزہ ملتا تھا جن کی بزم میں

ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں

پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر

کوہساروں میں نشانِ نقشِ پا ملتا نہیں

فیضِ باطن سے مدد لے ، عشق کا ہو جا مرید

اہلِ ظاہر کے ملائے تو خدا ملتا نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *