مجھ سے بچھڑ کے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے (محسن نقوی)

مجھ سے بچھڑ کے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے

کہ ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے

یہ ختمِ وصل کا لمحہ ہے، رائیگاں نہ سمجھ

کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے

کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں کے شجر

کسے خبر کہ ترے سائے میں کون بیٹھا ہے

یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو

وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے

ترا بدن ہے یہ کہ آئینوں کا دریا ہے

میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں

کبھی کبھی تو نے مجھے ٹھیک سمجھا ہے

مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب

میں نے شاخ سے گل کو بچھڑتے دیکھا ہے

میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں لوگ

کہ پھول ٹوٹی ہوئی قبر پر بھی کھلتا ہے

اُسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن

کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *