درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں (جاوید اختر)

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں

زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں

چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر

میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی

سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں

راستہ روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے

کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں

نرم آواز، بھلی باتیں، مہذب لہجے

پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اتر جاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *