سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا (عبیداللہ علیم)

سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا

یہ زندگی ہے ہماری سمبھال کر رکھنا

کھلا کہ عشق نہیں ہے کچھ اور اس کے سوا

ردائے یار جو ہو وہ اپنا حال کر رکھنا

اسی کا کام ہے فرشِ زمیں بچھا دینا

اسی کا کام  ستارے اچھال کر رکھنا

اسی کا کام ہے اس دکھ بھرے زمانے میں

محبتوں سے مجھے مالا مال کر رکھنا

بس ایک کیفیتِ دل میں  بولتے رہنا

بس ایک نشے میں خود کو نہال کر رکھنا

بس ایک قامتِ زیبا کے خواب میں رہنا

بس ایک شخص کو حدِ مثال کر رکھنا

گزرنا حسن کی نظارگی سے پل بھر کو

پھر اس کو ذائقئہ لازوال کر رکھنا

کسی کےبس میں نہیں تھا کسی کے بس میں نہیں

بلندیوں کوسدا پائمال کر رکھنا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *