اب کے عجب سفر پہ نکلنا پڑا مجھے (تابش الوری)

اب کے عجب سفر پہ نکلنا پڑا مجھے

 راہیں کسی کے نام تھیں چلنا پڑا مجھے

تاریک شب نے سارے ستارے بجھا دیے

 میں صبح کا چراغ تھا جلنا پڑا مجھے

یاران دشت رونق بازار بن گئے

 سنسان راستوں پہ نکلنا پڑا مجھے

ہر اہل انجمن کی ضرورت تھی روشنی

 میں شمع انجمن تھا پگھلنا پڑا مجھے

ظالم بہت ہے شدت احساس آگہی

 اکثر پرائی آگ میں جلنا پڑا مجھے

راہوں کے پیچ و خم میں بلا کے طلسم تھے

 چلنا بڑا محال تھا چلنا پڑا مجھے

آساں نہیں تھا ظلمت شب سے مقابلہ

 سر پر جلا کے آگ پگھلنا پڑا مجھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *