کون روک سکتا ہے (نوشی گیلانی)

لاکھ ضبطِ خواہش کے

بے شمار دعوے ہوں

اس کو بھول جانے کے

بے پنہ ارادے ہوں

اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا

فیصلہ سنانے کو

کتنے لفظ سوچے ہوں

دل کو اس کی آہٹ پر

برملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے

پھر وفا کے صحرا میں

اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی

خوشوؤں کو چھونے کی

جستجو میں رہنے سے

روح تک پگھلنے سے

ننگے پاؤں چلنے سے

کون روک سکتا ہے

آنسوؤں کی بارش میں

چاہے دل کے ہاتھوں میں

ہجر کے مسافر کے

پاؤں تک بھی چھو آؤ

جس کو لوٹ جانا ہو

اس کو دور جانے سے

راستہ بدلنے سے

دور جا نکلنے سے

کون روک سکتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *