دیدار کی ہوس ہے نہ شوقِ وصال ہے (جلیل مانک پوری)

دیدار کی ہوس ہے نہ شوقِ وصال ہے

آزاد ہر خیال سے مست خیال ہے

کہہ دو یہ کوہکن سے کہ مرنا نہیں کمال

مر مر کے ہجرِ یار میں جینا کمال ہے

فتویٰ دیا ہے مفتئی ابرِ بہار نے

توبہ کا خون بادہ کشوں کو حلال ہے

آنکھیں بتا رہی ہیں کہ جاگے ہو رات کو

ان ساغروں میں بوئے شرابِ وصال ہے

برساؤ تیر مجھ پہ مگر اتنا جان لو

پہلو میں دل ہے دل میں تمہارا خیال ہے

آنکھیں لڑا کے ان سے ہم آفت میں پڑگئے

پلکوں کی ہر زباں پہ دل سوال ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *