نہیں ہے تابِ ضبطِ غم کسی عاشق کے امکاں میں (سائل دہلوی)

نہیں ہے تابِ ضبطِ غم کسی عاشق کے امکاں میں

دلِ خوں گشتہ یا دامن میں ہو گا یا گریباں میں

ہمیشہ پے کے مے جام و صراحی توڑ دیتا ہوں

نہ میرا دل ترستا ہے نہ فرق آتا ہے ایماں میں

مزہ کیوں کاوشِ زخمِ جگر کا آج کم کم ہے

نمک کی کوئی چٹکی رہ گئی ہو گی نمک داں میں

بہار آئی ملا یہ حکم مجھ کو اور بلبل کو

کہ وہ کاٹے قفس میں ، خاک چھانوں میں بیاباں میں

ترنم ریزیاں بزمِ سخن میں سن کے سائل کی

گماں ہوتا ہے بلبل کے چہکنے کا گلستاں میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *