Monthly archives: April, 2020

رکی رکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی (فراق گورکھ پوری)

رکی رکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیں بھی دیں گی نہ ساتھ مسافروں سے کہو اس کی راہگزر آئی فضا تبسمِ صبحِ بہار تھی لیکن پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی کہیں زمان و مکاں میں ہے نام …

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں (فراق گورکھ پوری)

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں ہم ایسے میں تِری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں …

آج بھی قافلئہ عشق رواں ہے کہ جو تھا (فراق گورکھ پوری)

آج بھی قافلئہ عشق رواں ہے کہ جو تھا وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے  کہ جو تھا آج بھی کام محبت کے بہت نازک ہیں دل وہی کارگہِ شیشہ گراں ہے کہ جو تھا قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا …

اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے (جگر مراد آبادی)

اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے سمٹے تو دلِ عاشق،  پھیلے تو زمانہ ہے کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے ہم خاک نشینوں کی ٹھو کر میں زمانہ ہے تصویر کے دو رخ ہیں ، جان اور غمِ جاناں اک نقش چھپانا ہے ، اک نقش دکھانا ہے یہ …

کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی (جگر مراد ابادی)

کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی …

دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں (جگر مراد آبادی)

دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند خود حسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز کانٹوں سے بھی نبھاہ کیے جا رہا ہوں میں آگے …

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح (ناطق لکھنوی)

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح دل کے سوا کوئی نہ تھا سرمایہ اشک کا حیراں ہوں کام آنکھوں کا جاری ہے کس طرح عنصر ہے خیر و شر کا ہر اک شے میں یوں نہاں ہر شمعِ بزم نوری و ناری ہے …

نئی دنیا مجسم دلکشی معلوم ہوتی ہے (نشور واحدی)

نئی دنیا مجسم دلکشی معلوم ہوتی ہے مگر اس حسن میں دل کی کمی معلوم ہوتی ہے حجابوں میں نسیمِ زندگی معلوم ہوتی ہے کسی دامن کی ہلکی تھرتھراتی معلوم ہوتی ہے مری راتوں کی خنکی ہے ترے گیسوئے پُرخم میں یہ بڑھتی چھاؤں بھی کتنی گھنی معلوم ہوتی ہے وہ اچھا تھا جو بیڑا …

اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا (شاد عارفی)

اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا تو میں مرنے سے درگزرا مِرے کس کام آئے گا عطا کی جب کہ خود پیرِ مغاں نے پی بھی لے زاہد یہ کیسا سوچنا ہے تجھ پہ کیوں الزام آئے گا شبِ ہجراں کی سختی ہو تو لیکن یہ کیا کم ہے کہ لب …