Monthly archives: April, 2020

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے (جلیل عالی)

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے بیتابی کچھ اور بڑھا دی اک جھلک دکھلا دینے سے پیاس بجھے کیسے صحرا کی دو بوندیں برسا دینے سے ہنستی آنکھیں لہو رلائیں کھلتے گل چہرے مرجھائیں کیا پائیں بے مہر ہوائیں دل …

فقیرانہ آئے صدا کر چلے (میر تقی میر)

فقیرانہ آئے صدا کر چلے میان خوش رہو ہم دعا کر چلے جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اِس عہد کو اب وفا کر چلے شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی کہ مقدور تک تو دوا کر چلے بہت آرزو تھی گلی کی تِری سو یاں سے لہو میں نہا …

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا (میر تقی میر)

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی اب سنگ مداوا ہے اس اشفتہ سری کا اپنی تو جہاں …

جو تو ہی صنم ہم سے بے زار ہو گا (میر تقی میر)

جو تو ہی صنم ہم سے بے زار ہو گا تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا غمِ ہجر رکھے گا بے تاب دل کو ہمیں کڑھتے کڑھتے کچھ آزار ہو گا جو افراطِ الفت ہے ایسا تو عاشق کوئی دن میں برسوں کا بیمار ہو گا اچٹتی ملاقات کب تک رہے گی کبھو تو …

باتیں ہماری یاد رہیں گی باتیں نہ ایسی سنیے گا (میر تقی میر)

باتیں ہماری یاد رہیں گی باتیں نہ ایسی سنیے گا پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا سعی و تلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی صحبت میں علماء فضلاء کی جاکر پڑھیے گا گنیے گا دل کی تسلی جب کہ ہوگی گفت و شنود سے لوگوں کی …

رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری (میر تقی میر)

رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری اُسی سے دور رہا اصل مدعا جو تھا گئی یہ عمرِ عزیزیز آہ رائگاں میری ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا گئی …

دل ہے اپنا نہ اب جگر اپنا (جلیل مانک پوری)

دل ہے اپنا نہ اب جگر اپنا کر گئی کام وہ نظر اپنا اب تو دونوں کی ایک حالت ہے دل سنبھالوں کہ میں جگر اپنا میں ہوں گو بے خبر زمانے سے دل ہے پہلو میں با خبر اپنا دل میں آئے تھے سیر کرنے کو رہ پڑے وہ سمجھ کے گھر اپنا تھا …

دیدار کی ہوس ہے نہ شوقِ وصال ہے (جلیل مانک پوری)

دیدار کی ہوس ہے نہ شوقِ وصال ہے آزاد ہر خیال سے مست خیال ہے کہہ دو یہ کوہکن سے کہ مرنا نہیں کمال مر مر کے ہجرِ یار میں جینا کمال ہے فتویٰ دیا ہے مفتئی ابرِ بہار نے توبہ کا خون بادہ کشوں کو حلال ہے آنکھیں بتا رہی ہیں کہ جاگے ہو …

وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا (جلیل مانک پوری)

وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا تم گلے سے کیا ملے سارا گلہ جاتا رہا یار تک پہنچا دیا بیتابئی دل نے ہمیں اک تڑپ میں منزلوں کا حوصلہ جاتا رہا ایک تو آنکھیں دکھائیں پھر یہ شوخی سے کہا کہیے اب تو کم نگاہی کا گلہ جاتا رہا روز جاتے تھے خط …

ہمارا دل وہ گل ہے جس کو زلفِ یار میں دیکھا (جلیل مانک پوری)

ہمارا  دل وہ گل ہے جس کو زلفِ یار میں دیکھا جو زلفیں ہو گئیں برہم گلے کے ہار میں دیکھا بھلا گل کیا ترا ہم سر ہو جس کی یہ حقیقت ہے ابھی گلشن میں دیکھا تھا ابھی بازار میں دیکھا بصیرت جب ہوئی پیدا ہمیں مشقِ تصور سے جو کچھ خلوت میں دیکھا …