جب یہ چھوٹا سا اک بول زباں پر آتا ہے (پروین فنا سید)

حرفِ وفا

جب یہ چھوٹا سا اک بول زباں پر آتا ہے

!میں ڈر جاتی ہوں

اور تمہیں اصرار کہ میں یہ حرف دہراتی جاؤں

روزِ ابد تک کہتی جاؤں، گاتی جاؤں

لیکن میں ڈر جاتی ہوں خود اپنے آپ سے

اپنے دل کی سچائی سے

جب یہ بول زبان تک آ جاتا ہے

یوں لگتا ہے

جیسے مرا احساسِ وفا اور میرے دل کی پہنائی

میرے مہذب جذبوں کی گہرائی

میری نظر کی وسعت میرے نغموں کی رعنائی

درد و کرب کے رشتوں کی آگاہی

سب مل کر اس اک چھوٹے سے بول میں گھل جاتے ہیں

پھر یہ بول دکھوں کی بھٹی میں تپتا ہے

تپ تپ کر کندن ہو جاتا ہے

تب کہیں جا کر جب ہونٹوں تک آتا ہے۔۔۔۔۔ میں ڈر جاتی ہوں

یہ سوچں تو ڈر جاتی ہوں

کہیں اگر تم اس جذبے کی گہرائی تک پہنچ نہ پائے

کہیں اگر  تم رول نہ لائے

وہ موتی جو اس چھوٹے سے بول کی تہہ میں پوشیدہ ہیں

تو کیا میں پھر جی بھی سکوں گی؟

جی چاہا تو مر بھی سکوں گی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *