اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی (احمد فراز)

آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں

یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی

تج دیا تھا کل جن کوہم نے تیری چاہت میں

آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی

 ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے

تو نے کس گھڑی ظالم میری ہم نوائی کی

ترک کر چکے قاصد کوئے نامراداں کو

کون اب خبر لاوے شہرِ آشنائی کی

پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور شاید

دیکھنا اڑا دے گا  پھر خبر رہائی کی

دکھ ہوا جب اس در پر کل فراز کو دیکھا

لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *