قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی (پروین شاکر)

قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی

پر میں کیا کرتی کہ زنجیر تیرے نام کی تھی

جس کے ماتھے پہ مرے بخت کا تارہ چمکا

چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی

میں نے ہاتھوں کو ہی پتوار بنایا ورنہ

ایک ٹوٹی ہوئی کشتی مرے کس کام کی تھی

یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا

یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشام کی تھی

بوجھ اٹھائے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک

اے زمیں ماں! تری یہ عمر تو آرام کی تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *