میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی (اعتبار ساجد)

میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی

کہیں آگ سازشوں کی، کہیں آنچ نفرتوں کی

کوئی باغ جل رہا ہے یہ مگر مری دعا ہے

مرے پھول تک نہ پہنچے یہ ہوا تمازتوں کی

مرا کون سا ہے موسم مرے موسموں کے والی!

یہ بہار بے دلی کی یہ خزاں مروتوں کی

میں قدیم بام و در میں انہیں جا کے ڈھونڈتا ہوں

وہ دیار نکہتوں کے وہ فضائیں چاہتوں کی

کہیں چاند یا ستارے ہوئے ہم کلام مجھ سے

کہیں پھول سیڑھیوں کے کہیں جھاڑیاں چھتوں کی

مرے کاغذوں میں شاید کہیں اب بھی سو رہی ہو

کوئی صبح گلستاں کی کوئی شام پربتوں کی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *