چاہتوں کے بے ثمر بے سود خوابوں میں رکھا (اعتبار ساجد)

چاہتوں کے بے ثمر بے سود خوابوں میں رکھا

عمر بھر ناحق مجھے تو نے سرابوں میں رکھا

کیا ملا تجھ کو میری مٹی جو کی تو نے خراب

کیوں مجھے تو نے تمنا کے عذابوں میں رکھا

اک ردائے وعدۃ فردا دلکش آڑ میں

خواب جنت کے دکھائے اور خرابوں میں رکھا

روح کو ہم خار زاروں میں لئے پھرتے رہے

جان و دل کو مبتلا کتنے عذابوں میں رکھا

اک دلِ زندہ کو پتھر کی سِلوں میں رکھ دیا

اک گلِ شاداب کو مردہ کتابوں میں رکھا

اے قضا پرور، یہ میرے ساتھ تو نے کیا کیا

اے اَجل پیشہ، مرا دکھ کن حسابوں میں رکھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *