یہ رات بے نوید ہے مزید عرض کیا کریں (اعتبار ساجد)

یہ رات بے نوید ہے مزید عرض کیا کریں

سحر کی کم امید ہے مزید عرض کیا کریں

ان آندھیوں میں ہم اسیرِ بام ودر ہوئے، جہاں

گھٹن بہت شدید ہے مزید عرض کیا کریں

شکستہ ٹہنیوں پہ بھی کھلیں گے پھول خیر سے

شنید ہی شنید ہے مزید عرض کیا کریں

وہ فصلِ گل جب آئے گی تو دیکھئے گا آپ بھی

ابھی تو شوقِ دید ہے مزید عرض کیا کریں

وہی حسینِ بے وطن ہے تشنہ لبِ فرات پر

وہی صفِ یزید ہے مزید عرض کیا کریں

قفس کی جالیوں سے دیکھتے ہیں رونقِ چمن

یہی ہماری عید ہے مزید عرض کیا کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *