کچھ حسن وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے (نعیم صدیقی)

کچھ حسن وفا کے دیوانے پھر عشق کی راہ میں کام آئے

اے کاش تماشا کرنے کو خود تو بھی کنارِ بام آئے

الفاظ نہ تھے آواز نہ تھی نامہ بھی نہ تھا قاصد بھی نہ تھا

ایسے بھی کئی پیغام گئے ایسے بھی کئی پیغام آئے

شب مے خانے کی محفل میں اربابِ وفا کا ذکر چلا

جب سنتے رہے، ہم ڈرتے رہے تیرا بھی نہ ان میں نام آئے

ہم گرچہ فلک پرواز بھی ہیں اور تاروں کے ہم راز بھی ہیں

صیاد پہ آیا رحم ہمیں خود شوق سے زیرِ دام آئے

پھر لالہ وگل کی نگری سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے صبا

اے اہلِ قفس! چپ چاپ سنو پھولوں کے تمہیں پیغام آئے

یہ بات الگ ہے پاس رہا کچھ تشنہ لبی کی غیرت کا

ہم پر بھی رہا ساقی کا کرم ہم تک بھی بہت سے جام آئے

شب کتنی بوجھل بوجھل ہے ہم تنہا تنہا بیٹھے ہیں

 ایسے میں تمہاری یاد آئی جس طرح کوئی الہام آئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *