اٹھو یہ منطر شب تاب دیکھنے کے لیے (عرفان صدیقی)

اٹھو یہ منطر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

وہ مرحلہ ہے کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں

ہم اس زمیں کو شاداب دیکھنے کے لیے

جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں

پیادگاں کو ظفریاب دیکھنے کے لیے

کہاں ہے تو کہ یہاں جل رہے ہیں صدیوں سے

چراغ دیدہ و محراب دیکھنے کے لیے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *