دنیا کے ستم یاد نہ اپنی وفا یاد (جگر مراد آبادی)

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی وفا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد

شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے

اب تک ہے وہ اک نغمئہ بے ساز و سدا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش

اس وقت وہ کچھ اور بھی آتا ہے سوا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو

مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

مدت ہوئی اک حادثئہ عشق کو لیکن

اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی سدا یاد

ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدتِ غم سے

ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد

میں ترکِ راہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا

کیوں آگئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد

کیا لطف کہ میں اپنی پتہ آپ بتاؤں

کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *