اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں (امیر مینائی)

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا

کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں

ضبط کم بخت نے یاں آ کے گلا گھونٹا ہے

کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں

نقش پا دیکھ تو لوں لاکھ کروں گا سجدے

سر مرا عرش نہیں ہے جو جھکا بھی نہ سکوں

بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنے قلم سے مجھ کو

یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں

اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے مرے زانو پر

اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *