مانا وہ ایک خواب تھا دھوکا نظر کا تھا (رشید قیصرانی)

مانا وہ ایک خواب تھا دھوکا نظر کا تھا

اس بے وفا سے ربط مگر عمر بھر کا تھا

خوشبو کی چند مست لکیریں ابھار کر

لوٹا ادھر ہوا کا وہ جھونکا، جدھر کا تھا

نکلا وہ بار بار گھٹاؤں کی اوٹ سے

اس سے معاملہ تو فقط اک نظر کا تھا

تم مسکرا رہے تھے تو شب ساتھ ساتھ تھی

آنسو گرے تھے جس پہ وہ دامن سحر کا تھا

ہم آج بھی خود اپنے ہی سائے میں گھر گئے

سر میں ہمارے آج بھی سودا سفر کا تھا

کالی کرن، یہ گنگ صداؤں کے دائرے

پہنچا کہاں رشید، ارادہ کدھر کا تھا  

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *