ہوا تھمی تھی ضرور لیکن (امجد اسلام امجد)

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن

وہ شام بھی جیسے سسک رہی تھی

کہ زرد پتوں کو آندھیوں‌ نے

عجیب قصہ سنا دیا تھا

کہ جس کو سن کر تمام پتے

سسک رہے تھے

بلک رہے تھے

جانے کس سانحے کے غم میں

شجر جڑوں سے اکھڑ چکے تھے

بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو

ہر ایک رستہ

ہر ایک وادی

ہر ایک پربت

ہر ایک گھاٹی

مگر

کہیں سے تیری خبر نہ آئی

تو یہ کہہ کر ہم نے دل کو ٹالا

ہوا تھمے گی تو دیکھ لیں گے

ہم اس کے رستوں کو ڈھونڈ لیں گے

مگر …. ہماری یہ خوش خیالی

جو ہم کو برباد کر گئی تھی

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن

بڑی ہی مدت گزر چکی تھی

ہمارے بالوں کے جنگلوں میں

سفید چاندی اتر چکی تھی

فلک پہ تارے نہیں رہے تھے

گلاب پیارے نہیں رہے تھے

وہ جن سے بستی تھی دل کی بستی

وہ یار سارے نہیں رہے تھے

مگر یہ المیہ سب سے بالاتر تھا

کہ ہم تمہارے نہیں رہے تھے

کہ تم ہمارے نہیں رہے تھے

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن

بڑی ہی مدت گزر چکی تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *