ہجر کے پر بھیگ جائیں
کہاں تک خیمۂ دل میں چھپائیں
اپنی آسوں اور پیاسوں کو
کہاں تک خوف کے بے شکل صحرا کی ہتھیلی پر
کریدے جائیں آنکھیں اور
لکیریں روشنی کی پھر نہ بن پائیں
ہم انساں ہو کے بھی سائے کی خوشبو کو ترس جائیں
چلو اک دوسرے کی خواہشوں کی دھوپ میں
جلتے ہوئے آنگن کی ویرانی میں آنکھیں بند کر لیں اور برس جائیں
یہاں تک ٹوٹ کر برسیں کہ پانی
وصل کی مٹی میں خوشبو گوندھ لے اور پھر سروں تک سے گزر جائے
زمین سے آسماں تک ایک ہی منظر سنور جائے
ہمارے راستوں پر آسماں اپنی گواہی بھیج دے
خوشبو بکھر جائے
زمیں پاؤں کو چھو لے
چاندنی دل میں اتر جائے
ہوا گر ہجر کی سازش میں حصہ دار بن کر درمیاں آئے
ہجر کے پر بھیگ جائیں اور
ہوا پانی میں مل جائے
Everything is very open with a really clear description of the issues. It was definitely informative. Your website is very useful. Many thanks for sharing!