میں تنہا ہجر کے جنگل کے غاروں میں (نوشی گیلانی)

مری آواز سنتے ہو

میں تنہا ہجر کے جنگل کے غاروں میں

جلاتی ہوں

سخن کے وہ دیئے جن کو

ابھی باہر کی زہریلی ہوائیں اجنبی محسوس کرتی ہیں

ابھی یہ روشنی جو سچ کی خوشبو کی حفاظت کے لیے

تاریکیوں سے لڑ رہی ہے، نا شناسی کے

غبار آلود رستوں سے گزرتی ہے

ابھی جگنو شبوں میں اپنے ہونے کی گواہی تک نہیں دیتے

ابھی تو تتلیاں میلے پروں سے در بدر پھرتی ہیں بے چاری

ابھی تو چاند بھی ٹھنڈک نہیں دیتا محبت کی

ابھی تو رات کے شانوں پہ ہیں حالات کی زلفیں

مجھے معلوم ہے میں جانتی ہوں مجھ کو رہنا ہے

اسی غار اذیت میں

مگر سن لو

یہیں سے میرے ہونٹوں کو ملا ہے وصف گویائی

یہیں سے میرے ہونٹوں کو ملا ہے وصف گویائی

یہیں سے میں نے سچ کی روشنی خود میں اتاری ہے

اسی غار اذیت نے مرے لفظوں کو آوازیں عطا کی ہیں

یہیں سے ایک دن سورج نکلنا ہے وفاؤں کا

یہیں سے ایک دن حرف محبت بھی جنم لے گا

مرے لفظوں میں معنی کا اثر محسوس کرتے ہو

مری آواز سنتے ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *