Category «اخترالایمان»

اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں (اخترالایمان)

 تبدیلی اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں جو مجھ راہ چلتے کو پہچان لے اور اواز دے ” اوئے سر پھرے” دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر وہیں گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر گالیاں دیں، ہنسیں، ہاتھا پائی کریں .پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر گھنٹوں ایک دوسرے کی …

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں (اخترالایمان)

بے تعلقی شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقتِ رواں جو کبھی سنگِ گراں بن کے میرے سر پہ گرا راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا اشک بن کر میری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے جو کبھی خونِ جگر بن کے مژہ …

تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے (اخترالایمان)

بنتِ لمحات تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی رواں دواں ہوئے خوشبوؤں کے قافلے ہر سو خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی یہ اِک کہرا سا،  یہ دھند سی …

نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں (اخترالایمان)

بلاوا نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں ڈھونڈ رہے ہیں اب تک مجھ کو کھیل رہے ہیں میرے ارماں میرے سپنے میرے آنسو ان کی چھلنی چھاؤں میں جیسے دھوپ میں بیٹھے کھیل رہے ہوں بالک باپ سے روٹھے روٹھے! دن کے اجالے سانجھ کی لالی رات کے اندھیارے سےکوئی مجھ …

میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات (اخترالایمان)

آگہی میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات، ہر فلسفہ جانتا تھا کھڑے ہو کے منبر پہ پہروں سلاطینِ پارین و حاضر حکایاتِ شیریں و تلخ ان کی، ان کے درخشاں جرائم  جو صفحاتِ تاریخ پر کارنامے ہیں، ان کے اوامر نواہی حکیموں کے اقوال، دانا خطیبوں کے خطبے جنہیں مستمندوں نے باقی رکھا اس …

تتلیاں ناچتی ہیں (اخترالایمان)

باز آمد۔۔۔۔۔۔ایک منتاج تتلیاں ناچتی ہیں پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں جیسے اک بات ہے جو کان میں کہنی ہے خاموشی سے اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات دھوپ میں تیزی نہیں ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے دستِ شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا …

بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو (اخترالایمان)

اعتماد بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو یوں اڑا دوں گی میں ، موجِ دریا بڑھی بولی میرے لئے ایک تنکا ہے تو یوں بہادوں گی میں ، آتشِ تند کی ایک لپٹ نے کہا میں جلادوں گی اور زمیں نے کہا میں نگل جاؤں گی میں نے چہرے سے اپنے الٹ دی …

آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم (اخترالایمان)

آخری ملاقات آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم !آتی نہیں کہیں سے دلِ زندہ کی صدا سونے پڑے ہیں کوچہ و بازار عشق کے ہے شمعِ انجمن کا نیا حسن جاں گداز شاید نہیں رہے وہ پتنگوں کے ولولے تازہ نہ رہ سکیں گی روایاتِ دشت و در وہ فتنہ سر گئے جنہیں کانٹے …