Category «اسداللہ غالب»

نکتہ چیں ہے، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے (مرزا غالب)

نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبئہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے کاش یوں بھی ہو کہ بن …

میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں (مرزا غالب)

میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں چل نکلتے جو مے پئے ہوتے قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو کاش کہ تم مرے لئے ہوتے میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی یارب کئی دیئے ہوتے آ ہی جاتا وہ راہ پر غالب کوئی دن اور بھی جئے ہوتے

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور (مرزا غالب)

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور مٹ جائے گا سر، گر ترا پتھر نہ گھسے گا ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور آتے ہو کل، اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں مانا کہ نہیں، اچھا، کوئی دن اور جاتے …

پھر مجھے دیدۃ تر یاد آیا (مرزا غالب)

پھر مجھے دیدۃ تر یاد آیا دل، جگر تشنئہ فریاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا سادگی ہائے تمنا، یعنی پھر وہ نیریگِ نظر یاد آیا عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل! نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی گھر ترا خلد …

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو (مرزا غالب)

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں سُبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر …

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں (مرزا غالب)

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں تا پھر نہ انتطار میں نیند آئے عمر بھر آنے کا وعدہ کر گئے آئے جو خواب میں قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے خط کے جواب میں …

کہتے ہو نہ دیں گے ہم ، دل اگر پڑا پایا (مرزا غالب)

کہتے ہو نہ دیں گے ہم ، دل اگر پڑا پایا دل کہاں کہ گم کیجے، ہم نے مدعا پایا عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی ، دردِ بے دوا پایا دوستدارِ دشمن ہے ، اعتمادِ دل معلوم! آہ بے اثر دیکھی ، نالہ نارسا پایا سادگی و پُرکاری …

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا (مرزا غالب)

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یارب تیر بھی سینئہ بسمل سے پُرافشاں نکلا بوئے گل، نالئہ دل ، دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا دلِ حسرت زدہ تھا مائدۃ لذتِ درد کام …

ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا (مرزا غالب)

ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا منظر ایک بلنددی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا دردِ دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دِکھلاؤں انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا تا کرے نہ غمازی کر لِیا دشمن …

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں (مرزا غالب)

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں دیر نہیں حرم نہیں ، در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز …