Category «شکیب جلالی»

سوچتا ہوں کہ وہ کتنے معصوم تھے (شکیب جلالی)

سوچتا ہوں کہ وہ کتنے معصوم تھے کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے میں نے پتھر سے جن کو بنایا صنم وہ خدا ہو گئے دیکھتے دیکھتے حشر ہے وحشتِ دل کی آوارگی ہم سے پوچھو محبت کی دیوانگی جو پتہ پوچھتے تھے کسی کا کبھی لاپتہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے ہم سے یہ سوچ …

مِری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں (شکیل بدایونی)

مِری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں مجھے راس آئیں خدا کرے یہی اشتباہ کی ساعتیں انھیں اعتبارِ وفا تو ہے مجھے اعتبارِ ستم نہیں وہی کارواں وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم …

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے (شکیب جلالی)

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی آنکھ جھپکی بھی نہیں ، ہاتھ سے پتوار گرے مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سایئہ دیوار پہ دیوار گرے تیرگی چھؤڑ …

سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی (شبنم شکیل)

سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی چپ کیوں ہے پرندوں کی صدا کیوں نہیں آتی گل کھلنے کا موسم ہے تو پھر کیوں نہیں کھلتے خاموش ہیں کیوں پیڑ ۔ صبا کیوں نہیں آتی بے خواب کواڑوں پہ ہوا دیتی ہے دستک سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کیوں نہیں آتی سنتے ہیں …

آگ کے درمیان سے نکلا (شکیب جلالی)

آگ کے درمیان سے نکلا میں بھی کس امتحان سے نکلا پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے پھر دھواں گلستان سے نکلا جب بھی نکلا ستارۂ امید کہر کے درمیان سے نکلا چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں کوئی سایہ مکان سے نکلا ایک شعلہ پھر اک دھویں کی لکیر اور کیا خاکدان سے نکلا چاند …

جب بھی گُلشن پہ گَھٹا چھائی ہے (شکیب جلالی)

جب بھی گُلشن پہ گَھٹا چھائی ہے چشمِ مَے گُوں، تِری یاد آئی ہے کِس کے جَلووں کو نظر میں لاؤں حُسن خوُد میرا تماشائی ہے آپ کا ذکر نہیں تھا لیکن بات پر بات نکل آئی ہے زندگی بخش عزائم کی قسم ناؤ ساحل کو بہا لائی ہے مُجھ کو دُنیا کی مُحبّت پہ …

زعمِ وَفا بھی ہے ہَمَیں عِشقِ بُتاں کے ساتھ(شکیب جلالی)

زعمِ وَفا بھی ہے ہَمَیں عِشقِ بُتاں کے ساتھاُبھریں گے کیا، کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ تنہائیوں کے کیف سے نا آشنا نہیں !وابستگی ضرُور ہے بزمِ جہاں کے ساتھ اے چشمِ تر سفِینۂ دِل کی تھی کیا بِساطساحِل نَشِیں بھی بہہ گئےسَیلِ رَواں کے ساتھ اُن ساعتوں کی یاد سے مہکا ہُوا …

آدابِ چَمن بدل رہے ہیں (شکیب جلالی)

آدابِ چَمن بدل رہے ہیںصحرا میں گُلاب پَل رہے ہیںدُنیا کی حقیقتیں وہی ہیںاندازِ نظر بدل رہے ہیںآمد ہے کِس اَسیرِ نَو کیزنداں میں چراغ جَل رہے ہیںہمّت نے جواب دے دیا ہےدیوانے پھر بھی چَل رہے ہیںہونٹوں پہ ہنسی اور آنکھ پُرنمپانی سے چراغ جَل رہے ہیںآشائیں غرُوب ہو رہی ہیںاُمید کے سائے ڈھل …

جب بھی گُلشن پہ گَھٹا چھائی ہے (شکیب جلالی)

جب بھی گُلشن پہ گَھٹا چھائی ہے چشمِ مَے گُوں، تِری یاد آئی ہے کِس کے جَلووں کو نظر میں لاؤں حُسن خوُد میرا تماشائی ہے آپ کا ذکر نہیں تھا لیکن بات پر بات نکل آئی ہے زندگی بخش عزائم کی قسم ناؤ ساحل کو بہا لائی ہے   مُجھ کو دُنیا کی مُحبّت …