Category «غلام محمد قاصر»

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا (غلام محمد قاصر)

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا اس کی شکل مجھے چاند میں نظر آئی وہ ماہ رُخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا بٹھا دیا مجھے دریا …

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے (غلام محمد قاصر)

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے خارِ چمن تھے شبنم شبنم، پھول بھی سارے گیلے تھے شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں …

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا (غلام محمد قاصر)

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا تصویر نہیں بدلی شیشہ بھی نہیں بدلا نظریں بھی سلامت ہیں چہرہ  بھی نہیں بدلا ہے شوقِ سفر ایسا کہ اک عمر سے یاروں نے منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا بے کار گیا بن میں سونا …