Category «غلام ہمدانی مصحفی»

رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا (مصحفی)

رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے جب ورق یار کی تصویر دورو کا نکلا یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا مر گئی …

ہے مئے گُل گوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں (غلام ہمدانی مصحفی)

ہے مئے گُل گوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں یا دلِ پُر خوں ہے میرا، اے شرابی! ہاتھ میں دیکھنے کو جلوہ تیرے حسن کا شب آسماں ماہ سے رکھتا ہے روشن ماہتابی ہاتھ میں جو نکل آیا وہ گُل گھر سے بوقتِ نیمروز مہرِ تاباں لے کے دوڑا آفتابی ہاتھ میں آستیں اس …

معشوق ہوں یا عاشقِ معشوق نما ہوں(غلام ہمدانی مصحفی)

معشوق ہوں یا عاشقِ معشوق نما ہوں معلوم نہیں مجکو ۔ کہ میں کون ہوں- کیا ہوں ہوں شاہدِ تننزیہہ کے رخسارہ کا پردہ یا خود ہی میں شاہد ہوں ۔ کہ پردہ میں چھپا ہوں ہستی کو مری ہستیِ عالم نہ سمجھنا ہوں ہست – مگر ہستیِ عالم سے جدا ہوں انداز ہیں سب …

کیا دید میں عالم کی کروں جلوہ گری کا (غلام ہمدانی مصحفی)

کیا دید میں عالم کی کروں جلوہ گری کا یاں عمر کو وقفہ ہے چراغِ سحری کا تربت پہ مِری برگِ گلِ تازہ چڑھائے احسان ہے مجھ پہ یہ نسیمِ سحری کا جو دیکھے ہے نقشے کو تِرے، وہ یہ کہے ہے سارا بدن انسان کا ، چہرہ ہے پری کا ہے جی میں کہ …

سرِ شام اس نے منہ سے جو رخِ نقاب الٹا (غلام ہمدانی مصحفی)

سرِ شام اس نے منہ سے جو رخِ نقاب الٹا نہ غروب ہونے پایا وہیں آفتاب الٹا مہِ چار دہ کا عالم میں دکھاؤں گا فلک کو اگر اُس نے پردۃ منہ سے شبِ ماہتاب الٹا جو ہیں آشنائے مشروب وہ کسی سے ہوں نہ سائل اسی واسطے رہے ہے قدحِ حباب الٹا جو خفا …

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں (غلام ہمدانی مصحفی)

حیراں ہوں اپنے کام کی تدبیر کیا کروں جاتی رہی ہے آہ سے تاثیر کیا کروں شورِ جنوں ہوا ہے گُلو گیر کیا کروں ہے ٹوٹی جاتی پاؤں کی زنجیر کیا کروں نا گفتنی ہے حالِ دلِ ناتواں مرا آتی ہے شرم میں اسے تقریر کیا کروں دل مانگتا ہے مجھ سے، مجھے بھی دیے …

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا (غلام ہمدانی مصحفی)

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا کبھی اس سے بات کرنا، کبھی اس سے بات کرنا تجھے کس نے روک رکھا، ترے جی میں کیا یہ آئی کہ گیا تو بھول ظالم، ادھرالتفات کرنا ہوئی تنگ اس کی بازی، مری چال سے تو رخ پھیر وہ یہ ہمدموں سے بولا کوئی اس …

ایسے ڈرے ہیں کسی کی نگاہِ غضب سے ہم (غلام ہمدانی مصحفی)

 ایسے ڈرے ہیں کسی کی نگاہِ غضب سے ہم بدخواب ہو گئے ہیں جو دو چار شب سے ہم کب کامیابِ بوسہ ہوئے اس کے لب سے ہم شرمندہ ہی رہے دلِ مطلب طلب سے ہم یہ روز ڈھونڈ لائے ہے اک خوبرو نیا شاکی ہیں اپنے ہی دلِ آفت طلب سے ہم طرزِ خرامِ …