Category «فیض احمد فیض»

رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا (فیض احمد فیض)

رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا اور کیا دیکھنے کو باقی ہے آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا وہ مرے ہو کے بھی مِرے نہ ہوئے ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا آج ان کی نظر میں ہم نے سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا …

وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں (فیض احمد فیض)

وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں وہ اِک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں تم آرہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں یہی کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ یہی ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ …

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے (فیض احمد فیض)

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے  تم سے تھے جتنے استعارے تھے تیرے قول و قرار سے پہلے اپنے کچھا اور بھی سہارے تھے جب وہ لعل و گہر حساب کئے جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے میرے …

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے (فیض احمد فیض)

پھر حریفِ بہار ہو بیٹھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے تھی، مگر اتنی رائیگاں بھی نہ تھی آج کچھ زندگی سے کھو بیٹھے تیرے در تک پہنچ کے لوٹ آئے عشق کی آبرو ڈبو بیٹھے ساری دنیا سے دور ہو جائے جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے نہ گئی تیری بے رُخی نہ …

دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب اب تک (فیض احمد فیض)

فرشِ نومیدیِ دیدار دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن  اب اب تک جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ  کھلا ہے اب بھی اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی اورکہیں یاد کسی دل زدہ …

کب ٹھہرے گا درد اے دل ، کب رات بسر ہو گی (فیض احمد فیض)

کب ٹھہرے گا درد اے دل ، کب رات بسر ہو گی سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہوگی کب جاں لہو ہو گی ، کب اشک گہر ہو گا کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی واعظ ہے نہ زاہد ہے ، ناصح ہے نہ قاتل ہے اب شہر …

یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا (فیض احمد فیض)

یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا   غمِ جہاں ہو، رخِ یار ہو کہ دستِ عدو سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا   تھے خاکِ راہ بھی ہم لوگ قہرِ طوفاں بھی سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو …

مِرے دل مرے مسافر (فیض احمد فیض)

دلِ من مسافرِ من   مِرے دل مرے مسافر ہوا پھر سے حکم صادر کہ وطن بدر ہوں ہم تم دیں گلی گلی صدائیں کریں رخ نگر نگر کا کہ سراغ کوئی پائیں کسی یارِ نامہ بر کا  ہراک  اجنبی سے پوچھیں جو پتہ تھا اپنے گھر کا سرِ کوئے ناشنایاں ہمیں دن سے رات …

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے )فیض احمد فیض)

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے   ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھاؤ کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے   کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف کرے نہ شہر میں جل تھل تو …