Category «مصطفٰی خان شیفتہ»

جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے (مصطفیٰ خان شیفتہ)

جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے نہیں ہے خواب سے بہتر کچھ ارمغاں کے لیے تمام علت درماندگی ہے قلت شوق تپش ہوئی پر پرواز مرغ جاں کے لیے شریک بلبل و قمری ہیں وہ زبوں فطرت جو بے قرار رہے سیر گلستاں کے لیے امید ہے کہ نباہیں گے امتحاں لے …

جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے (مصطفیٰ خان شیفتہ)

جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے نہیں ہے خواب سے بہتر کچھ ارمغاں کے لیے تمام علت درماندگی ہے قلت شوق تپش ہوئی پر پرواز مرغ جاں کے لیے شریک بلبل و قمری ہیں وہ زبوں فطرت جو بے قرار رہے سیر گلستاں کے لیے امید ہے کہ نباہیں گے  امتحاں لے …

ناز وتمکیں ہے وہاں، صبرکی یاں تاب نہیں (مصطفیٰ خان شیفتہ)

ناز وتمکیں ہے وہاں، صبرکی یاں تاب نہیں یہی صورت ہے تو کچھ نبھنے کے اسباب نہیں منع کیوں عشقِ مجازی سے ہمیں کرتے ہو زاہدو! دہر مگر عالمِ اسباب نہیں؟ کہیے اعدا کی بھی کچھ دل شکنی ہے منظور یہ تو مانا کہ تمہیں خاطرِ احباب نہیں شکوہ آئینِ محبت میں ہے ایجادِ لطیف …

جی جائے پر جفا میں ہمارا زیاں نہیں (مصطفیٰ خان شیفتہ)

جی جائے پر جفا میں ہمارا زیاں نہیں قدرِ وفا نہیں ہے اگر امتحاں نہیں دل کا گِلہ، فلک کی شکایت یہاں نہیں وہ مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں ہم آئے ہیں جہاں سے وہیں کا خیال ہے جز شاخِ سدرہ ہم کو سرِ اشیاں نہیں اک حالِ خوش میں بھول گئے کائنات کو …

مانا سحر کو یار اُسے جلوہ گر کریں (مصطفیٰ خان شیفتہ)

مانا سحر کو یار اُسے جلوہ گر کریں طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم بسر کریں آئے تو ان کو رنج، نہ آئے تو مجھ کو رنج مرنے کی میرے کاش نہ ان کو خبر کریں وہ دوست ہیں انہیں جو اثر ہو گیا تو کیا نالے ہیں وہ جو غیر کے دل میں اثر …

جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا (مصطفیٰ خان شیفتہ)

جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا کچھ اور رنگ ڈھنگ ہوا کائنات کا شیشہ اتار شکوے کو بالائے طاق رکھ کیا اعتبار زندئی بے ثبات کا گر تیرے تشنہ کام کو دے خضر مرتے دم پانی ہو خشک چشمئہ آبِ حیات کا واعظ جنوں زدوں سے نہیں باز پرسِ حشر بس آپ فکر …

اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا (مصطفیٰ خان شیفتہ)

اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا دشمن کو اور دوست نے دشمن بنا دیا صحرا بنا رہا ہے وہ افسوں شہر کو صحرا کو جس کے جلوے نے گلشن بنا دیا تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار شب موم کر لیا سحر آہن بنا دیا مشاطہ کا قصور سہی سب …

شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں (مصطفیٰ خان شیفتہ)

شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں جلوے نے تیرے آگ لگائی نقاب میں وہ قطرہ ہوں کہ موجئہ دریا میں گم ہوا وہ سایہ ہوں کہ محو ہوا آفتاب میں سالک کی یہ مُراد کہ مجھ سے ہو نفس بھی رہزن کو یہ خیال کہ رہرو ہو خواب میں جور و ستم عیاں …