Monthly archives: August, 2020

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے پیام آتے ہیں (داغ دہلوی)

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے پیام آتے ہیں کس قیامت کے یہ نامے مِرے نام آتے ہیں تو سہی حشر میں تجھ سے جو نہ یہ کہوادوں دوست وہ ہوتے ہیں جو وقت پر کام آتے ہیں راہرو راہِ محبت کا خدا حافظ ہے اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں صبر …

جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو (داغ دہلوی)

جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو خلش کیوں ہو تپش کیوں ہو قلق کیوں ہو فغاں کیوں ہو مزا آتا نہیں تھم تھم کے ہم کو رنج و راحت کا خوشی ہو غم ہو جو کچھ ہو الٰہی ناگہاں ہو  یہ مصرع لکھ دیا ظالم نے میری لوحِ تربت پر …

عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا (داغ دہلوی)

عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہییں اعتبار ہوتا یہ مزہ تھا دل لگی کا …

ہر سانس ہے شرحِ ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے (دل شاہجہاں پوری)

ہر سانس ہے شرحِ ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے تکمیلِ وفا ہے مٹ جانا ، جینے کی تمنا کون کرے جو غافل تھے ہُشیار ہوئے جو سوتے تھے بیدار ہوئے جس قوم کی فطرت مردہ ہو اس قوم کو زندہ کون کرے ہر صبح کٹی ہر شام کٹی ، بیداد سہی افتاد سہی …

نہ دن پہاڑ لگے اب نہ رات بھاری لگے (شکیب بنارسی)

نہ دن پہاڑ لگے اب نہ رات بھاری لگے نہ آئے نیند تو آنکھوں کو کیا خماری لگے خوشی نہیں تھی تو غم سے نباہ کر لیتے کسی کے ساتھ طبیعت مگر ہماری لگے کوئی نہ ہو کبھی احباب کے کرم کا شکار مری طرح نہ کسی دل پہ زخم کاری لگے ہمیں تڑپتا ہوا …

کوئی فریاد ترے دل میں دبی ہو جیسے (فیض انور)

کوئی فریاد ترے دل میں دبی ہو جیسے تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے پر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا …

ضبط کی کوشش ہے جان ناتواں مشکل میں ہے (وحشت رضا علی کلکتوی)

ضبط کی کوشش ہے جان ناتواں مشکل میں ہے کیوں عیاں ہو آنکھ سے وہ غم جو پنہاں دل میں ہے جس سے چاہو پوچھ لو تم میرے سوز دل کا حال شمع بھی محفل میں ہے پروانہ بھی محفل میں ہے عشق غارت گر نے شہہ دی حسن آفت خیز کو شوق بسمل ہی …

سوچتا ہوں کہ وہ کتنے معصوم تھے (شکیب جلالی)

سوچتا ہوں کہ وہ کتنے معصوم تھے کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے میں نے پتھر سے جن کو بنایا صنم وہ خدا ہو گئے دیکھتے دیکھتے حشر ہے وحشتِ دل کی آوارگی ہم سے پوچھو محبت کی دیوانگی جو پتہ پوچھتے تھے کسی کا کبھی لاپتہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے ہم سے یہ سوچ …

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں (اقبال عظیم)

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں پرسشِ حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو پرسشِ حال ، طبیعت کو گوارا بھی نہیں یوں سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر تم نے دیکھا بھی نہیں، ہم نے پکارا بھی نہیں عرضِ احوال کی …

چاند تاروں کی بھری بزم اٹھی جاتی ہے (جاوید وشینٹھ)

چاند تاروں کی بھری بزم اٹھی جاتی ہے اب تو آ جاؤ، حسیں رات ڈھلی جاتی ہے رفتہ رفتہ تری ہر یاد مٹی جاتی ہے گرد سی وقت کے چہرے پہ جمی جاتی ہے میرے آگے سے ہٹا لو مے و مینا و سبو ان سے کچھ اور مری پیاس بڑھی جاتی ہے آج اپنے …