Category «ناصر کاظمی»

دل میں اِک لہر سی اتھی ہے ابھی (ناصر کاظمی)

دل  میں اِک لہر سی اتھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی شور برپا ہے خانئہ دل میں کوئی دیوار سی گری ہے ابھی بھری دُنیا میں جی نہیں لگتا جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی اور کچھ چوٹ بھی نئی ہے ابھی تم تو …

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی (ناصر کاظمی)

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا کہ …

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی (ناصر کاظمی)

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں، تُو اپنے ہونٹ سی کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے آنکھوں میں جن کے نُور، نہ باتوں میں تازگی بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی؟ میٹھے تھے جن …

آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے (ناصر کاظمی)

آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے خامُشی طرزِ ادا چاہتی ہے آج پھر وسعتِ صحرائے جنوں پرسشِ ابلہ پا چاہتی ہے دیکھ کیفیتِ طوفانِ بہار بوئے گل رنگ ہوا چاہتی ہے دل میں اب خارِ تمنا بھی نہیں زندگی برگ و نوا چاہتی ہے اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ غنچے غنچے کو صبا چاہتی …

تو ہے یا تیرا سایہ ہے (ناصر کاظمی)ناصر

تو ہے یا تیرا سایہ ہے بھیس جدائی نے بدلا ہے دل کی حویلی پرمدت سے خاموشی کا قفل پڑا ہے چیخ رہے ہیں خالی کمرے شام سے کتنی تیز ہوا ہے دروازے سر پھوڑ رہے ہیں کون اِس گھر کو چھوڑ گیا ہے تنہائی کو کیسے چھوڑوں برسوں میں اک یار ملا ہے ہچکی …

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے (ناصر کاظمی)

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے مگر جینے کی صورت تو رہی ہے میں کیوں پھرتا ہوں مارا مارا یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے چلے دل سے امیدوں کے مسافر یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے نہ سمجھو تم اسے شورِ بہاراں خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے …

نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور (ناصر کاظمی)

نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اُڑاؤں کس کے لیے وہ شہر میں تھا تو اس …

دل میں اور تو کیا رکھا ہے (ناصر کاظمی)

دل میں اور تو کیا رکھا ہے تیرا درد چھپا رکھا ہے اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں دل کا دیپ جلا رکھا ہے دھوپ سے چہروں نے دُنیا میں کیا اندھیر مچا رکھا ہے اس نگری کے کچھ لوگوں نے دکھ کا نام دوا رکھا ہے وعدۃ یار کی بات نہ چھیڑ یہ دھوکا …

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا(ناصر کاظمی)

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تِری یاد تھی اب یاد آیا آج مشکل تھا سنبھلنا  اے دوست تو مصیبت میں عجب یاد آیا تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا مر رہیں گے اگر اب یاد آیا حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا بیٹھ کر سایئہ گل میں …

اپنی دھن میں رہتا ہوں (ناصر کاظمی)

اپنی دھن میں رہتا ہوں میں بھی تیرے جیسا ہوں او پچھلی رُت کے ساتھی اب کے برس میں تنہا ہوں تیری گلی میں سارا دن دُکھ کے کنکر چُنتا ہوں مجھ سے آنکھ ملائے کون میں تیرا آئینہ ہوں میرا دیا جلائے کون میں تِرا خالی کمرہ ہوں تیرے سوا مجھے پہنے کون میں …