بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں (داغ دہلوی)

بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں ہم بھی دیکھیں تو اسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں ہم تصور میں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں سب میں اڑ جاتی ہے ظالم اسے کیا کہتے ہیں جو بھلے ہیں وہ بروں کو بھی بھلا کہتے ہیں نہ برا سنتے ہیں اچھے نہ …

افسوس میں نے روزِ ازل یہ نہ کہہ دیا (داغ دہلوی)

افسوس میں نے روزِ ازل یہ نہ کہہ دیا دے مجھ کو سب جہان کی نعمت سوائے دل گھبرا کے بزم ناز سے آخر وہ اٹھ گئے سن سن کے ہائے ہائے جگر ہائے ہائے دل کہتے نہ تھے سن کے وہ برا مان جائیں گے اے داغ ان سے اور کہو ماجرائے دل

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے (احمد مشتاق)

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے جس کی سانسوں سے مہکتے تھے درو بام ترے اے مکاں بول! کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے روز …

کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں (احمد مشتاق)

کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں موسمِ گل ہو کہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں ہم سے مخفی نہیں کچھ رہگزرِ شوق کا حال ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں …

شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں (احمد مشتاق)

شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گذری تھی کب دھندلکا ہوا کب شام ڈھلی یاد نہیں ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں ان مضافات …

خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا (احمد مشتاق)

خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا …

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا (احمد مشتاق)

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا دلِ مشتاق ٹھہر جا وہی منظر آیا میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سائے میں کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا بجھ گئی رونقِ پروانہ تو محفل چمکی سو گئے اہلِ تمنا تو ستم گر آیا یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی …

ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم (احمد مشتاق)

ان موسموں میں ناچتے گاتے رہیں گے ہم ہنستے رہیں گے شور مچاتے رہیں گے ہم لب سوکھ کیوں نہ جائیں گلا بیٹھ کیوں نہ جائے دل میں جو سوال ہیں اٹھاتے رہیں گے ہم اپنی رہِ سلوک میں چپ رہنا منع ہے چپ رہ گئے تو جان سے جاتے رہیں گے ہم نکلے تو …

بدن نزار ہوا دل ہوا نڈھال مرا (احمد مشتاق)

بدن نزار ہوا دل ہوا نڈھال مرا اس آرزو نے تو بھر کس دیا نکال مرا پلٹ کے بھی نہیں دیکھا پکار بھی نہ سنی رہا جواب سے محروم ہر سوال مرا جہاں اٹھانے ہیں سو رنج ایک یہ بھی سہی سنبھال خود کو مرے دل نہ کر خیال مرا وہ زلف باد صبا بھی …

یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے ( فراز)

یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے اب دل میں حوصلہ نہ …