خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا (عبدالحمید عدم)

  خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا مجھ کو سپردِ گردشِ ایام کر دیا   ساقی سیاہ خانئہ ہستی میں دیکھنا روشن چراغ کس نے سرِ شام کر دیا   پہلے مِرے خلوص کو دیتے رہے فریب آخر مِرے خلوص کو بدنام کر دیا                         کتنی دعائیں دوں تِری زلفِ دراز …

لہرا کے ، جھوم جھوم کے لا ، مسکرا کے لا (عبدالحمید عدم)

لہرا کے ، جھوم جھوم کے لا ، مسکرا کے لا پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا   کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں جا مے کدے سے میری جوانی اتھا کے لا   ساغر شکن ہے شیخِ بلا نوش کی نظر شیشے کو زیرِ دامنِ رنگیں چھپا کے لا …

جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں (عبد الحمید عدم)

جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں آدمی بے نظیر ہوتے ہیں   تیری محفل میں بیٹھنے والے کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں   پھول دامن میں چند لے لیجے راستے میں فقیر ہوتے ہیں   جو پرندے کی آنکھ رکھتے ہیں سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں   اے عدم احتیاط لوگوں سے لوگ منکر …

مِرے دل مرے مسافر (فیض احمد فیض)

دلِ من مسافرِ من   مِرے دل مرے مسافر ہوا پھر سے حکم صادر کہ وطن بدر ہوں ہم تم دیں گلی گلی صدائیں کریں رخ نگر نگر کا کہ سراغ کوئی پائیں کسی یارِ نامہ بر کا  ہراک  اجنبی سے پوچھیں جو پتہ تھا اپنے گھر کا سرِ کوئے ناشنایاں ہمیں دن سے رات …

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے )فیض احمد فیض)

بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے   ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھاؤ کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے   کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف کرے نہ شہر میں جل تھل تو …

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا (داغ دہلوی)

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا وہ مِرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا   دلِ ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں کام کس  کس کے مِرا خرمنِ آباد آیا   دی شبِ وصل مؤذن نے اذاں پچھلی رات ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا   لیجے سنیے اب افسانئہ فرقت …

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں (داغ دہلوی)

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں تجھ کو لِپٹ پڑیں گے کہ دیوانے آدمی ہیں   غیروں کی دوستی پر کیوں اعتبار کیجے یہ دشمنی کریں گے بیگانے آدمی ہیں   کیا چور ہیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں   ناصح سے …

راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے (داغ دہلوی)

راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے   کثرتِ داغِ محبت سے کھلا ہے گلزار سیر کرتے ہیں مِرے دل میں گزرنے والے   آہ و افغاں سے گئے صبر وتحمل پہلے چلنے والوں سے بھی آگے ہیں ٹھہرنے والے   حشر میں لُطف ہو جب …