دھنک دھنک مری پوروں کو خواب کر دے گا (پروین شاکر)

  دھنک دھنک مری پوروں کو خواب کر دے گا وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا   جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں بدن کو ناؤ ، لہو کو چناب کر دے گا   میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا ، …

ٹوٹی  ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا! (پروین شاکر)

ٹوٹی  ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا! بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا!   تم موج موج مثلِ  صبا گھومتے رہو کٹ جائیں کسی کی سوچ کے پر تم کو اس سے کیا      اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر …

سبز مدھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک (پروین شاکر)

  ایکسٹیسی    سبز مدھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن سلوٹیں ملبوس پر ، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا گرمئی رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ سُرخ ہونٹوں پر شرارت …

شکن چپ ہے (پروین شاکر)

پہلے پہل شکن چپ ہے بدن خاموش ہے گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں، لیکن میں گھر سے کیسے نکلوں گی ہوا ، چنچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے دیکھتے ہی مسکرائے گی ! مجھے چھو کر تری ہر بات پا لے گی تجھے مجھ سے چرا لے گی زمانے بھر سے کہہ دے …

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا (پروین شاکر)

  وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا   ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا   وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا …

خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم (پروین شاکر)

  خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم بچھڑ گیا تری صورت ، بہار کا موسم   کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں ٹھہر گیا ترے انتظار کا موسم   وہ نرم لہجے میں کچھ  تو کہے  کہ لوٹ آئے سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم   پیام آیا ہے …

دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے (پروین شاکر)

  دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے   ترے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے   عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں …

گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا (پروین شاکر)

  گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا چاند کو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھا تھا!   فضا میں کیٹس کے لہجے کی نرماہٹ تھی موسم اپنے رنگ میں فیض کا مصرعہ تھا   دعا کے بے آواز الوہی لمحوں میں وہ لمحہ بھی کتنا دلکش لمحہ تھا   ہاتھ اٹھا کر …

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے (ساحر لدھیانوی)

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے اگر صدا نہ اُٹھے کم سے کم فغاں نکلے فقیرِ شہر کے تن پر لباس باقی ہے امیرِ شہر  کے ارماں ابھی کہاں نکلے حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے ملال کیا ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے اِدھر بھی خاک اُڑی اُدھر بھی خاک اُڑی جدھر جدھر سے …

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا (منیر نیازی)

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا اس حسن کا شیوہ ہے  جب عشق نظر آئے پردے میں چلے جانا شرمائے ہوہئے رہنا اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے …