کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن (منیر نیازی)

گلِ صد رنگ کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن کبھی طویل شبِ ہجر کی طرح غمگیں شعاعِ لعل و حنا کی طرح مہکتی ہوئیں کبھی سیاہئی کوہِ ندا میں پردہ نشیں سنبھل کے دیکھ طلسمات اُن نگاہوں کا دلِ تباہ کی رنگین پناہوں کا

شام کے پیچ و خم ستاروں سے (فیض احمد فیض)

زنداں کی ایک شام شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار سرنگوں محو ہیں بنانے میں دامنِ آسماں پہ نقش و نگار !شانئہ بام پر دمکتا ہے مہرباں چاندنی کا دستِ …

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے (فیض احمد فیض)

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی ہاں نغمہ گرو سازِ صدا کیوں نہیں دیتے مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے کب …

دل میں اب یوں تِرے بھولے ہوئے غم آتے ہیں (فیض احمد فیض)

دل میں اب یوں تِرے بھولے ہوئے غم آتے ہیں جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں   ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں   رقصِ مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں   کچھ ہمیں کو …

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے (فیض احمد فیض)

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے دُنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا …

ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول (فیض احمد فیض)

آج پھر درد و غم کے دھاگے میں ہم پرو کر ترے خیال کے پھول   ترکِ الفت کے دشت سے چُن کر آشنائی کے ماو و سال کے پھول   تیری دہلیز پر سجا آئے پھر تری یاد پر چڑھا آئے   باندھ کر آرزو کے پلے میں  ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول   …

تمھاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے (قتیل شفائی)

تمھاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے   نکل کر دیرو کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے   تمھاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی تم آنکھوں سے پلا دیتے تو مے خانے …

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں (قتیل شفائی)

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں لوگ اب مجھ کو تِرے نام سے پہچانتے ہیں   آئنہ دارِ محبت ہوں کہ اربابِ وفا اپنے غم کو مِرے نام سے پہچانتے ہیں   باد و جام بھی اک وجہِ ملاقات سہی ہم تجھے  گردشِ ایام سے پہچانتے ہیں   پو پھٹے کیوں مِری پلکوں …