ترا ننھا سا قاصد جو ترے خط لے کے آتا تھا (اختر شیرانی)

ننھا قاصد

ترا ننھا سا قاصد جو ترے خط لے کے آتا تھا

نہ تھا معلوم اُسے کس طرز کے پیغام لاتا تھا

سمجھ سکتا نہ تھا وہ خط میں کیسے راز پنہاں ہیں

حروفِ سادہ میں  کس حشر کے انداز پنہاں ہیں

اسے کیا علم ان نیلے لفافوں میں چھپا کیا ہے

کسی مہ وش کا  ان کے بھیجنے سے مدعا کیا ہے

مگر مجھ کو خیال آتا تھا اکثر اس زمانے میں

کہ اس کی حیرتِ طفلی ہے کیوں گُم اِس فسانے میں

وہ با ایں کم سنی کیا یہ نہ دل میں سوچتا ہوگا

کہ باجی نے ہماری اپنے خط میں کیا لکھا ہوگا

اور آخر وہ اسی کو نامہ لکھ کر بھیجتی کیوں ہے

کبی بھیجا تو بھیجا لیکن اکثر بھیجتی کیوں ہے

وہ پہلے سے زیادہ بھائی کو کیوں پیار کرتی ہے

لفافہ دے کر لُطفِ خاص کا اظہار کرتی ہے

پھر ایسے اجنبی پر اس کی باجی مہرباں کیوں ہیں

اگر ہیں بھی تو  گھر والوں سے یہ باتیں نہاں کیوں ہیں

اور اُس کے شبہ کی اس سے بھی تو تائید ہوتی ہے

چھپا کر خط کو لے جانے کی تاکید ہوتی ہے

یہ نوخیز اجنبی جانے کِدھر سے اکثر آتا ہے

جب آتا ہے تو باجی کی طرح کے خط لاتا ہے

عزیزوں کی طرح یہ کیوں مکاں  میں آ نہیں سکتا

جب اُس سے پوچھتا ہے وہ اسے سمجھا نہیں سکتا

کھِلونے دے کر اُس کو مسکرا دیتا ہے وہ اکثر

اور اِک ہلکا سا تھپڑ بھی لگا دیتا ہے وہ اکثر

ترے قاصد کے یہ افکار دل کو گدگداتے تھے

اور اپنے بھولپن سے میرے جذبوں کو ہنساتے تھے

نہیں موقوف اِنھیں ایام پر جب بھی خیال آیا

تصور تیرے بعد اس کا بھی نقشہ سامنے لایا

مگر آج اس طرح دیکھا ہے وہ نقشِ حسیں میں نے

کہ رکھ دی خاکِ حیرت پر محبت کی جبیں میں نے

وہی ننھا سا قاصد نوجواں ہو کر ملا مجھ کو

زمانے کے تغیر نے  پریشاں کر دیا مجھ کو

جنونِ ابتدائے عشق نے کروٹ سی لی دل میں

پَس از مدت یہ لیلیٰ آگئی پھر اپنے محمل میں

ترے قاصد سے ملتے وقت مجھ کو شرم آتی تھی

مگر اس کی نگاہوں میں شرارت مسکراتی تھی

شرارت کا یہ نظارہ مِری حیرت کا ساماں تھا

کہ اِس پردے کے اندر تیرا رازِ عشق عریاں تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *