آخری بار ملو ( مصطفیٰ زیدی)

 

آخری بار ملو ایسے

کہ جلتے ہوئے دل

راکھ ہو جائیں

کوئی اور تقاضا نہ کریں

چاک وعدہ نہ سلے

زخمِ تمنا نہ کھلے

  سانس ہموار رہے

شفق کی لو تک نہ ہلے

   باتیں بس اتنی

کہ لمحے اُنہیں آکر گن لیں

آنکھ اٹھائے کوئی امید

تو آنکھیں چھن جائیں

اس ملاقات کا اِس بار

کوئی وہم نہیں

جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے

اب نہ ہیجان و جنوں کا

نہ حکایات کا وقت

اب نہ تجدیدِ وفا کا

نہ شکایات کا وقت

لُٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ

اب جو کہنا ہو

تو کیسے کوئی نوحہ کہے

آج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھے

کل سے جو ہوگا

اسے کون سا رشتہ کہیے

پھر نہ دہکیں گے کبھی

عارض و رُخسار  ملو

ماتمی ہیں دمِ رخصت

درو دیوار ملو

پھر نہ ہم ہوں گے

نہ اقرار نہ انکار ملو

آخری بار ملو

 

 

Comments 1

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *