Category «مصطفٰی زیدی»

آج اک افسروں کے حلقے میں (مصطفیٰ زیدی)

بزدل آج اک افسروں کے حلقے میں ایک معتوب ماتحت آیا اپنے افکار کا حساب لئے اپنے ایمان کی کتاب لئے ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں ایک بجھتی ہوئی ذہانت تھی افسروں کے لطیف لہجے میں قہر تھا، زہر تھا، خطابت تھی یہ ہر اک دن کا واقعہ، اس دن صرف اس اہمیت کا حامل …

پھیلی ہوئی ہے شام کراں تا کراں مگر (مصطفیٰ زیدی)

آج بھی پھیلی ہوئی ہے شام کراں تا کراں مگر کون و مکاں میں ساعت زنداں ہے آج بھی اس فلسفے کی سوزن پنہاں کے باوجود چاک جگر حقیقت عریاں ہے آج بھی اس نوجوان عصر ترقی پسند میں اک کہنہ یاد وقت بہ داماں ہے آج بھی کیا کیا نگار مثل بہاراں گزر گئے …

میری ہمدم، مرے خوابوں کی سنہری تعبیر (مصطفیٰ زیدی)

اُجالا میری ہمدم، مرے خوابوں کی سنہری تعبیر مسکرا دے کہ مرے گھر میں اجال ہو جائے آنکھ ملتے ہی اٹھ جائے کرن بستر سے صبح کا وقت ذرا اور سہانا ہو جائے میرے نکھرے ہوئے گیتوں میں ترا جادو ہے میں نے معیار تصور سے بنایا ہے تجھے میری پروین تخیل، مری نسرین نگاہ …

آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے (مصطفیٰ زیدی)

وفا کیسی؟ آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے جس سے اس شہر کے پھولوں کی مہک آتی تھی جس سے بے نور خیالوں میں چمک آتی تھی کعبئہ رحمتِ اصنام تھا جو مدت سے آج اس قصر کی زنجیر ہلا دی ہم نے آگ، کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی کرب کی …

رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس (مصطفیٰ زیدی)

یاد رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس چاند کشکولِ گدائی کی طرح نادم ہے ایک اک سانس کسی نام کے ساتھ آئی ہے ایک اک لمحہ آزاد نفس مجرم ہے کون یہ وقت کے گھونگھٹ سے بلاتا ہے مجھے کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب کون آیا ہے چڑھانے کو تمناؤں …

جس طرح ترکِ تعلق پہ ہے اصرار اب کے (مصطفیٰ زیدی)

شہناز جس طرح ترکِ تعلق پہ ہے اصرار اب کے ایسی شدت تو مرے عہدِ وفا میں بھی نہ تھی میں نے تو دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر جس کی جرات صفِ تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی تو نے جس لہر کی صورت سے مجھے چاہا تھا ساز میں بھی نہ …

فن کار خود نہ تھی، مرے فن کی شریک تھی (مصطفیٰ زیدی)

شہناز فن کار خود نہ تھی، مرے فن کی شریک تھی وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی اترا تھا جس پہ بابِ حیا کا ورق ورق بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی میں ایک اعتبار سے آتش پرست تھا وہ سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی وہ نازشِ ستارہ …

ہر اک نے کہا کیوں تجھے ارام نہ آیا (مصطفیٰ زیدی)

ہر اک نے کہا کیوں تجھے ارام نہ آیا سُنتے رہے ہم ، لب پہ تِرا نام نہ آیا دیوانے کو تکتی ہیں تِرے شہر کی گلیاں نکلا تو اِدھر لوٹ کے بدنام نہ آیا مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے یہ دیکھ کہ تجھ پہ کوئی الزام نہ آیا کیا …

کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا (مصطفیٰ زیدی)

کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا دیکھا تو ہر جمال اِسی آئینے میں تھا قُلزم نے بڑھ کے چوم لیے پھول سے قدم دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا  اِک رشتئہ وفا تھا سو کس  ناشناس سے اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا صہبائے تند …

فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے (مصطفیٰ زیدی)

فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے کہیں تو مِل مجھے، اے گمشدہ خدا میرے میں شمع کُشتہ بھی تھا، صبح کی نوید بھی تھا شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے وہ دردِ دل میں ملا، سوزِجسم و جا ں میں ملا کہاں کہاں اسے ڈھونڈا جو ساتھ تھا میرے ہر ایک شعر میں، میں اُس …