چوڑیوں کی کھنک (منصورہ احمد)

رتجگے

چوڑیوں کی کھنک

چنریوں کی دھنک

موتئے کی مہک

 ایک دن بھول کر میرے گھر آئے تھے

میں نے دہلیز سے ان کو لوٹا دیا

امتناعی رتوں کی کڑی دھوپ میں

پھول کے خیر مقدم کا ارماں نہ تھا

اور پھر یوں ہوا

خواب کے خوف نے چونکتی آنکھ میں رتجگے بو دیئے

تیرے دیدار کی بے بصر ساعتوں میں

جدائی کے منظر پروئے گئے

شہر کے راستے ہجر کے ضابطے بن گئے

تجھ سے دوری کے منشور پر

سارے ایوان نے دستخط کر دیئے

اور پھر یوں ہوا

دھجیوں سے بنی رات جب زندگی سے بڑی ہوگئی

تو یہ فرماں ملا “خواب لکھو”

رات کی دھجیوں سے بنے حرف سے ریشمی خواب لکھو

اب یہ کیسے بتاؤں کہ میں

اجنبی سرزمینوں کے احوال لکھوں تو کیسے لکھوں

کہ اک بے ابد رتجگے میں ڈھلی یہ مری آنکھ تو

خواب کے سبز موسم سے واقف نہیں

میں تو تخلیق کی اولیں رات سے آج تک

کرچیوں سے بنی آنکھ کھولے ہوئے جاگتی ہی رہی

کوئی فرماں رواؤں سے جا کر کہے

جاگتی آنکھ میں خواب ڈھلتے نہیں

برف کے پیڑ پر پھول کھِلتے نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *