مِرے ہم نفس مِرے ہمنوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے (شکیل بدایونی)

 

مِرے ہم نفس مِرے ہمنوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے

 

مجھے چھوڑ دے مِرے حال پر تِرا کیا بھروسا اے چارہ گر

یہ تِری نوازشِ مختصر مِرا درد اور بھڑھا نہ دے

 

مِرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں

مجھے خوف آتشِ گل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

 

مِرے داغِ دل سے ہے روشنی، یہی روشنی مِری زندگی

مججھے ڈر ہے اے مِرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے

 

وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے اے شکیل کہاں ہے تو

تِرا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے9

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *