Category «شکیل بدایونی»

مِری زندگی ہے ظالم تِرے غم سے آشکارا (شکیل بدایونی)

مِری زندگی ہے ظالم تِرے غم سے آشکارا تِرا غم ہے در حقیقت مجھے زندگی سے پیارا وہ اگر برا نہ مانیں تو جہانِ رنگ و بو میں میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہارا مجھے تجھ سے خاص نسبت، میں رہینِ موجِ دریا جنہیں زندگی تھی پیارے انہیں مِل گیا کنارہ میں …

بدلے بدلے مِرے غم خوار نظر آتے ہیں (شکیل بدایونی)

بدلے بدلے مِرے غم خوار نظر آتے ہیں مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں کشتئی غیرتِ احساس سلامت یا رب ! آج طوفان کے آثار نظر آتے ہیں جو سنا کرتے تھے ہنس ہنس کے مرا نغمئہ وشق اب مِری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں ان کے آگے جو جھکی رہتی ہیں نظریں …

شاید آغاز ہوا پھر کسی افسانے کا (شکیل بدایونی)

شاید آغاز ہوا پھر کسی افسانے کا حکم ادم کو ہے جنت سے نکل جانے کا ان سے کچھ کہہ تو رہا ہوں مگر اللہ کرے وہ بھی مفہوم نہ سمجھیں مِرے افسانے کا دیکھنا دیکھنا یہ حضرتِ واعظ ہی نہ ہوں راستہ پوچھ رہا ہے کوئی مے خانے کا بے تعلق ترے آگے سے …

کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے (شکیل بدایونی)

کوئی آرزو نہیں ہے  کوئی مدعا نہیں ہے تِرا غم رہے سلامت مِرے دل میں کیا نہیں ہے کہاں جامِ غم کی تلخی کہاں زندگی کا درماں مجھے وہ دوا ملی ہے جو مِری دوا نہیں ہے تمھیں کہہ دیا ستمگر یہ قصور تھا زباں کا مجھے تم معاف کر دو مِرا دل برا نہیں …

لطیف پردوں سے تھے نمایاں مکیں کے جلوے مکاں سے پہلے (شکیل بدایونی)

لطیف پردوں سے تھے نمایاں مکیں کے جلوے مکاں سے پہلے محبت آئینہ ہو چکی تھی وجودِ بزمِ جہاں سے پہلے ہر ایک عنوان دردِ فرقت ہے ابتدا شرحِ مدعا کی کوئی بتائے کہ یہ فسانہ سنائیں ان کو کہاں سے پہلے اٹھا جو مینا بدست ساقی رہی نہ کچھ تابِ ضبط باقی تمام مے …

مِری زندگی ہے ظالم تِرے غم سے آشکارا (شکیل بدایونی)

مِری زندگی ہے ظالم تِرے غم سے آشکارا تِرا غم ہے در حقیقت مجھے زندگی سے پیارا وہ اگر برا نہ مانیں تو جہانِ رنگ و بو میں میں سکونِ دل کی خاطر کوئی ڈھونڈ لوں سہارا مجھے تجھ سے خاص نسبت، میں رہینِ موجِ دریا جنہیں زندگی تھی پیارے انہیں مِل گیا کنارہ میں …

یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں (شکیل بدایونی)

یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں پائل کے غموں کا علم نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں ناحق ہے ہوس کے بندوں کو نظارۃ فطرت کا دعویٰ آنکھوں میں نہیں ہے بےتابی دیدار کی باتیں کرتے ہیں کہتے ہیں انہی کو دشمنِ دل اور نام انہی کا ناصح ہے وہ …

ہنگامۂ غم سے تنگ آ کر اظہارِ مسرّت کر بیٹھے (شکیل بدایونی)

ہنگامۂ غم سے تنگ آ کر اظہارِ مسرّت کر بیٹھے مشہور تھی اپنی زندہ دلی دانستہ شرارت کر بیٹھے کوشش تو بہت کی ہم نے مگر پائی نہ غمِ ہستی سے مَفَر ویرانئ دل جب حد سے بڑھی گھبرا کے محبت کر بیٹھے ہستی کے تلاطم میں پنہاں تھے عیش و طرب کے دھارے بھی …

مِرے ہم نفس مِرے ہمنوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے (شکیل بدایونی)

  مِرے ہم نفس مِرے ہمنوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے   مجھے چھوڑ دے مِرے حال پر تِرا کیا بھروسا اے چارہ گر یہ تِری نوازشِ مختصر مِرا درد اور بھڑھا نہ دے   مِرا عزم اتنا بلند ہے …

اے محبت تِرے انجام پہ رونا آیا (شکیل بدایونی)

اے محبت تِرے انجام پہ رونا آیا جانے کیوں آج تِرے نام پہ رونا آیا   یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی تھی آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا   کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا   مجھ پہ ہی …