کتنے عیش سے رہتے ہوں گے،  کتنے اتراتے ہوں گے (جون ایلیا)

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے،  کتنے اتراتے ہوں گے

جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے

شام ہوئی خوش باش یہاں کے میرے پاس آجاتے ہیں

میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آجاتے ہوں گے!

وہ جو نہ آنے والا ہے نہ اس سے مجھ کو مطلب تھا

آنے والوں سے کیا مطلب ، آتے ہیں آتے ہوں گے!

اس کی یاد کی بادِ صبا میں اور تو کیا ہوتا ہو گا

یونہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے!

یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا

وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے!

میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے

یعنی میرے بعد بھی  یعنی سانس لئے جاتے ہوں گے!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *