اک ذرا سوچنے دو (فیض احمد فیض)

سوچنے دو

 

اک ذرا سوچنے دو

اس خیاباں میں

جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں

کون سی  شاخ پہ پھول آئے تھے سب سے پہلے

کون بے رنگ ہوئی رنج و تعب سے پہلے

اور اب سے پہلے

کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں

خون کا قحط پڑا

گل کی شہ رگ پہ کڑا

وقت پڑا

سوچنے دو

 

اک ذرا سوچنے دو

یہ بھرا شہر  جو اب وادی وِیراں بھی نہیں

اس میں کس وقت کہاں

آگ لگی تھی پہلے

اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول

زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کمال

کس جگہ جوت جگی تھی پہلے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *